ہاتھ میں کبوتر ہے دل میں ناگ پلتے ہیں

غزل| ڈاکٹر حنیف شبابؔ انتخاب| بزم سخن

ہاتھ میں کبوتر ہے دل میں ناگ پلتے ہیں
بے خدا سیاست میں ایسے سکے چلتے ہیں
اس کی یاد کا رشتہ یوں نہ ٹوٹ پائے گا
ذہن کے دریچوں میں کچھ چراغ جلتے ہیں
وقت جب تھا ہاتھوں میں سرکشی پہ مائل تھے
وقت ڈھل چکا ہے اور اب وہ ہاتھ ملتے ہیں
زندگی تبسم ہے اور ہے یہ آنسو بھی
جیسے دھوپ اور سائے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
چاند پھول خوشبو سے رغبتیں نہیں اس کو
ہم بھی ایسی باتوں سے اب کہاں بہلتے ہیں
نظم کے مخالف تو ہم نہیں شبابؔ ویسے
چند خواب ایسے ہیں جو غزل میں ڈھلتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام