شبِ فراق میں اک ہاتھ دل کے پاس آیا

غزل| سعودؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

شبِ فراق میں اک ہاتھ دل کے پاس آیا
ہجومِ اشک میں یہ کون غم شناس آیا
پھر ایک وقت وہ آیا کہ جب مرے دل کو
غمِ جہاں بھی ترے غم کی طرح راس آیا
رتوں نے جیسے دلوں سے مطابقت کر لی
سکون کی فصل کٹی موسم ہراس آیا
نکل چکا جو فضاوؤں میں اس کا زعمِ دروں
غبارہ لوٹ کے اپنی زمیں کے پاس آیا
وہیں کہیں پہ مری بھی انا تمام ہوئی
جب اُس کے حکم میں اک رنگِ التماس آیا
وضاحتوں کے سبھی لفظ چشمِ تر کو ملے
اک آدھ حرف لبِ کم سخن کے پاس آیا

شفق کے ساتھ اتر آئیں خوں میں روشنیاں
زمیں کے واسطے افلاک سے لباس آیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام