رستے میں غیر مل گئے یا رات ہو گئی

غزل| استاد قمرؔ جلالوی انتخاب| بزم سخن

رستے میں غیر مل گئے یا رات ہو گئی
اُن کے لئے کوئی نہ کوئی بات ہو گئی
اُن کی طرف سے ترکِ ملاقات ہو گئی
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی
آنسو تھمے تو آنکھوں ہی میں بات ہو گئی
میخانے جیسے کھل گئے برسات ہو گئی
آئینہ دیکھنے میں نئی بات ہو گئی
اُن سے ہی آج اُن کی ملاقات ہو گئی
طے اُن سے روزِ حشر ملاقات ہو گئی
اِتنی سی بات کتنی بڑی بات ہو گئی
کم ظرفیِ حیات سے تنگ آ گیا تھا میں
اچھا ہوا قضا سے ملاقات ہو گئی
دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل کی راہ سے
یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی
آئے ہیں وہ مریضِ محبت کو دیکھ کر
آنسو بتا رہے ہیں کوئی بات ہو گئی
اچھا ہوا کہ تم مرے رونے پہ ہنس دئیے
کہنے کو عمر بھر کے لئے بات ہو گئی
اب دشمنوں کی مجھ سے ہو کرتے شکایتیں
جب دشمنوں کی مجھ سے ملاقات ہو گئی
تھا اور کون پوچھنے والا مریض کا
تم آ گئے تو پرسشِ حالات ہو گئی
اے بلبلِ بہارِ چمن اپنی خیر مانگ
صیّاد و باغباں میں ملاقات ہو گئی
جب زلف یاد آ گئی یوں اشک بہہ گئے
جیسے اندھیری رات میں برسات ہو گئی
گلشن کا ہوش اہلِ جنوں کو بھلا کہاں
صحرا میں پڑ رہے تو بسر رات ہو گئی
در پردہ بزمِ غیر میں دونوں کی گفتگو
اُٹھی اِدھر نگاہ اُدھر بات ہو گئی
کب تک قمرؔ ہو شام کے وعدے کا انتظار
سورج چھپا چراغ چلے رات ہو گئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام