جسم پر طوق نہ زنجیر کی گنجائش ہے

غزل| لیاقت علی عاصمؔ انتخاب| بزم سخن

جسم پر طوق نہ زنجیر کی گنجائش ہے
ہاں مگر سینے میں اک تیر کی گنجائش ہے
دیکھتے ہی تجھے چپ ہوگئی ساری محفل
اب بھی ظالم کسی تقریر کی گنجائش ہے؟
ہے تو بھر پور بہت تیری نمائش گہِ کن
اس میں لیکن تری تصویر کی گنجائش ہے
قتل گاہیں ہیں بہت دار و رسن ایک نہیں
مان لو شہر میں تعمیر کی گنجائش ہے
یوں اکیلا مجھے سب چھوڑ گئے ہیں گویا
دشت میں ایک ہی رہ گیر کی گنجائش ہے
بس یہی سوچ کے اوروں کی طرح میں لکھا
اس زمیں میں ابھی جاگیر کی گنجائش ہے

ویسے اظہار و بیاں میں ہے مکمل عاصمؔ
آپ کے شعر میں تاثیر کی گنجائش ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام