تنظیمِ چمن کے عزم وہ سب وہ قول و پیماں بھول گئے

غزل| پنڈت آنند نرائن ملاؔ انتخاب| بزم سخن

تنظیمِ چمن کے عزم وہ سب وہ قول و پیماں بھول گئے
جو قبل بہاراں لب پر تھے ہنگامِ بہاراں بھول گئے
ہر سو وہ ہراس و دہشت ہے اپنوں کو بھی انساں بھول گئے
دل رسمِ محبت بھول گئے شاعر غمِ جاناں بھول گئے
پھولوں میں نہیں وہ خندہ لبی نکہت نفسی شبنم دہنی
وہ دورِ سموم و برق آیا تہذیبِ گلستاں بھول گئے
زخمی کی جاں کی فکر نہیں اور جامہ دری پرحشر بپا
یہ چاکِ گریباں پر نالاں چاکِ دلِ انساں بھول گئے
یوں خاک میں کانٹے پھیلے ہیں سبزہ کہیں جم پاتا نہیں
کانٹے ہی برنگِ سبزہ تھے گلشن کے نگہباں بھول گئے
لب ریز فقط جام اپنوں کے اوروں کے لیے قطرہ بھی نہیں
مے بانٹنے والے محفل کے کیا جرأتِ رنداں بھول گئے
پھولوں سے ہی رشتے جوڑ لیے گلشن ہی کے آخر ہو کے رہے
جتنے بھی سحاب اٹھے اب تک صحرا و بیاباں بھول گئے
جب تک تھے قفس میں گلشن تھا اک نور کی دنیا خوابوں میں
نکلے تو اندھیرا وہ پایا تاریکیٔ زنداں بھول گئے
مسند کی درخشاں شمعوں میں محفل کے خروشِ تحسیں میں
بھیگی ہوئی ویراں نظروں کے خاموش چراغاں بھول گئے
کردے نہ سپرد خاک وہی جس نے یہ بلندی دی ہے انھیں
یہ شوخ ستارے مژگاں کے کیا جنبشِ مژگاں بھول گئے
بیماریٔ انساں کم نہ ہوئی جتنے بھی طبیب آئے اب تک
یا جسمِ انساں بھول گئے یا روحِ انساں بھول گئے
نالہ نہ سرود آنسو نہ ہنسی شکوہ نہ دعا حسرت نہ طلب
شاید مرے دل کے ساحل کو سب زیست کے طوفاں بھول گئے

دنیا نے کسے کب یاد رکھا نظروں سے ہٹا تو دل سے مٹا
ملاؔ تو کسی گنتی میں نہ تھا مجنوں کو بیاباں بھول گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام