خلش کم تھی تو کیا غم تھا سکوں کم ہے تو کیا غم ہے

غزل| شاہدؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

خلش کم تھی تو کیا غم تھا سکوں کم ہے تو کیا غم ہے
بہر صورت ہمیں اندازۂ غم ہے تو کیا غم ہے
اک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب کامل خموشی تھی
ابھی انسان کی آواز مدھم ہے تو کیا غم ہے
کہیں نزدیک سے نغموں کی آوازیں بھی آتی ہیں
مری دنیا میں اب تک شورِ ماتم ہے تو کیا غم ہے
اسی دیوانگی سے ہوش کے آثار جھلکیں گے
ابھی دیوانگی معراجِ آدم ہے تو کیا غم ہے
بہاریں آ گئیں گلشن میں اس کا شکر کر ہمدم
بہاروں کا اثر امید سے کم ہے تو کیا غم ہے
حقیقت پر ہمیشہ کے لئے پردہ نہیں پڑتا
محبت آج تک اک حرفِ مبہم ہے تو کیا غم ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام