مے خانۂ ہستی میں اکثر ہم اپنا ٹھکانہ بھول گئے

غزل| سید عبد الحمید عدمؔ انتخاب| بزم سخن

مے خانۂ ہستی میں اکثر ہم اپنا ٹھکانہ بھول گئے
یا ہوش میں جانا بھول گئے یا ہوش میں آنا بھول گئے
اسباب تو بن ہی جاتے ہیں تقدیر کی ضد کو کیا کہئے
اک جام تو پہنچا تھا ہم تک ہم جام اٹھانا بھول گئے
آئے تھے بکھیرے زلفوں کو اک روز ہمارے مرقد پر
دو اشک تو ٹپکے آنکھوں سے دو پھول چڑھانا بھول گئے
چاہا تھا کہ ان کی آنکھوں سے کچھ رنگِ بہاراں لے لیجے
تقریب تو اچھی تھی لیکن دو آنکھ ملانا بھول گئے

معلوم نہیں آئینے میں چپکے سے ہنسا تھا کون عدمؔ
ہم جام اٹھانا بھول گئے وہ ساز بجانا بھول گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام