نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

نیا اک ربط پیدا کیوں کریں ہم
بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم
خموشی سے ادا ہو رسمِ دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں
وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
وفا ، اخلاص ، قربانی ، محبت
اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم
ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم
تمھاری ہی تمنا کیوں کریں ہم
کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے
تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم
اٹھا کر کیوں نہ پھینکیں ساری چیزیں
فقط کمروں میں ٹہلا کیوں کریں ہم
جو اک نسل فرومایہ کو پہنچے
وہ سرمایہ اکٹھا کیوں کریں ہم
نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم
برہنہ ہیں سر بازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
ہیں باشندے اسی بستی کے ہم بھی
سو خود پر بھروسا کیوں کریں ہم
چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچا
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم
پڑی ہیں دو انسانوں کی لاشیں
زمیں کا بوجھ ہلکا کیوں کریں ہم
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام