راحت کا مقدور کہاں تھا غم ہی گوارا ہو جاتا

غزل| تابشؔ دہلوی انتخاب| بزم سخن

راحت کا مقدور کہاں تھا غم ہی گوارا ہو جاتا
زیست کا کوئی پہلو تو جینے کا سہارا ہو جاتا
وحشت کی اک ایک ادا میں حسنِ بہاراں ارزاں تھا
عہدِ خزاں میں در پردہ ہی کوئی اشارا ہو جاتا
کوئی نفس تو عنواں بنتا ذوقِ ثباتِ ہستی کا
دم ہی لبوں پر آتے آتے نام تمہارا ہو جاتا
مجھ کو گوارا اپنی حیاتِ غم کی اک اک محرومی
کاش ہر اک محرومی کا احساس گوارا ہو جاتا
ایک نگاہِ لطف سی کیا کچھ ضبط کی قوت بڑھ جاتی
پرسشِ غم سے اور تو کیا ہاں دل کو سہارا ہو جاتا
عالم یہ احساسِ نظر کا خود بھی نظر پر بار ہیں ہم
دل کہتا ہے حشرِ تجلی کوئی نظارا ہو جاتا

ترکِ تمنا پر دلِ تنہا کیا کیا غم آمادہ ہے
پھر بھی یہ ارمان ہے تابشؔ کوئی ہمارا ہو جاتا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام