جانتا کوئی نہیں تقدیر کیا ہے کیا نہیں

غزل| رساؔ چغتائی انتخاب| بزم سخن

جانتا کوئی نہیں تقدیر کیا ہے کیا نہیں
اِس ورق کے اُس طرف تحریر کیا ہے کیا نہیں
قصرِ دل ڈھایا ہے جس نے یہ اُسی سے پوچھئے
اس میں مضمر صورتِ تعمیر کیا ہے کیا نہیں
زندگی ہوتی ہے کیا عمرِ رواں کیا چیز ہے
وقت کیا ہے وقت کی تعبیر کیا ہے کیا نہیں
شہر کی گنجان سڑکوں پر بگولوں کی طرح
موت کا یہ رقصِ بے زنجیر کیا ہے کیا نہیں
آپ کا ہر فیصلہ میرے لئے اعزاز ہے
اس کو جانے دیجئے تقصیر کیا ہے کیا نہیں
اس کہانی میں نہ جانے کیا مرا کردار ہے
اور کس کردار کی تفسیر کیا ہے کیا نہیں
کیا بتاؤں کون اس دل کے نہاں خانے میں ہے
کیا کہوں وہ پیکرِ تصویر کیا ہے کیا نہیں
اک اسیرِ زلف سے کیا پوچھتے ہو ناصحو!
زلف کیا ہے کیا نہیں زنجیر کیا ہے کیا نہیں

آپ کیا جانیں کہ زخمِ بے دلی ہوتا ہے کیا
اور پاسِ خاطرِ دل گیر کیا ہے کیا نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام