اقرارِ وفا امیدِ کرم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے

غزل| سرورؔ عالم راز انتخاب| سید ریّان

اقرارِ وفا امیدِ کرم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
وعدے وہ ترے مبہم مبہم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
سرشاریٔ الفت کا عالم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
جذبات کی وہ دھیمی سرگم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
آلام کی وہ یورش پیہم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
ڈوبی ہوئی نبضوں کا عالم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
یادوں کی خلش وہ شام و سحر مایوس سے وہ دیوار و در
احساس کی لو مدھم مدھم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
کیا وہم و گماں کیا علم و یقیں کیا فکر و غمِ دنیا و دیں
ہستی کے وہ سارے پیچ و خم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
وہ شعرِ مجسم جانِ سخن ہر سانس میں یوں ہے نغمہ زن
افسانۂ غم رودادِ الم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
کب دورِ خزاں آیا اور کب رخصت وہ گل رعنائی ہوا
محرومئ جاں مجبوریٔ غم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے
دل ایسے پرانے پاپی کو کیا کام ہے دین و ایماں سے
وہ سازِ کلیسا سوزِ حرم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے

عنوان یہی ٹھہرے سرورؔ افسانۂ ہستی کے تیرے
یا قلب حزیں یا دیدۂ نم کچھ کہہ نہ سکے کچھ بھول گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام