مری آنکھوں سے ظاہر خوں فشانی اب بھی ہوتی ہے

غزل| جان نثار اخترؔ انتخاب| بزم سخن

مری آنکھوں سے ظاہر خوں فشانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے
سرور آرا شرابِ ارغوانی اب بھی ہوتی ہے
مرے قدموں میں دنیا کی جوانی اب بھی ہوتی ہے
وہ شب کو مشک بو پردوں میں چھپ کر آ ہی جاتے ہیں
مرے خوابوں پر ان کی مہربانی اب بھی ہوتی ہے
کہیں سے ہاتھ آ جائے تو ہم کو بھی کوئی لا دے
سنا ہے اس جہاں میں شادمانی اب بھی ہوتی ہے
کہیں اغیار کے خوابوں میں چھپ چھپ کر نہ جاتے ہوں
وہ پہلو میں ہیں لیکن بدگمانی اب بھی ہوتی ہے
وہ برساتیں ، وہ باتیں ، وہ ملاقاتیں کہاں ہم دم
وطن کی رات ہونے کو سہانی اب بھی ہوتی ہے
خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں میں اک رات گذری تھی
ستاروں کی زباں پر یہ کہانی اب بھی ہوتی ہے

بتوں کو کر دیا تھا جس نے مجبورِ سخن اخترؔ
لبوں پر وہ نوائے آسمانی اب بھی ہوتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام