ایک تو نیناں کجرارے اور تس پر ڈوبے کاجل میں

غزل| جان نثار اخترؔ انتخاب| بزم سخن

ایک تو نیناں کجرارے اور تس پر ڈوبے کاجل میں
بجلی کی بڑھ جائے چمک کچھ اور بھی گہرے بادل میں
آج ذرا للچائی نظر سے اُس کو بس کیا دیکھ لیا
پگ پگ اُس کے دل کی دھڑکن اُتری آئے پایل میں
پیاسے پیاسے نیناں اُس کے جانے پگلی چاہے کیا
تٹ پر جب بھی جاوے سوچے ندیا بھر لوں چھاگل میں
صبح نہانے جوڑا کھولے ناگ بدن سے آ لپٹیں
اس کی رنگت اس کی خوشبو کتنی ملتی صندل میں
چاند کی پتلی نوک پہ جیسے کوئی بادل ٹِک جائے
ایسے اُس کا گرتا آنچل اٹکے آڑی ہیکل میں
گوری اس سنسار میں مجھ کو ایسا تیرا روپ لگے
جیسے کوئی دیپ جلا ہو گھور اندھیرے جنگل میں
کھڑکی کی باریک جھری سے کون یہ مجھ تک آ جائے
جسم چرائے نین جھکائے خوشبو باندھے آنچل میں
پیار کی یوں ہر بوند جلا دی میں نے اپنے سینے میں
جیسے کوئی جلتی ماچس ڈال دے پی کر بوتل میں
آج پتہ کیا کون سے لمحے کون سا طوفاں جاگ اٹھے
جانے کتنی درد کی صدیاں گونج رہی ہیں پل پل میں
ہم بھی کیا ہیں کل تک ہم کو فکر سکوں کی رہتی تھی
آج سکوں سے گھبراتے ہیں چین ملے ہے ہل چل میں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام