تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے

غزل| محمد علی جوہرؔ انتخاب| بزم سخن

تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لئے ہے
پر غیب سے سامانِ بقا میرے لئے ہے
یہ حور بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلہ میرے لئے ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لئے ہے
ائے شافعِ محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
جو صحبتِ اغیار میں اس درجہ ہو بے باک
اس شوخ کی سب حزم و حیا میرے لئے ہے
ہے ظلم بہت عام ترا پھر بھی ستم گر
مخصوص یہ اندازِ جفا میرے لئے ہے
ہے یوں تو فدا ابرِ سیہ پر سبھی مے کش
پر آج کی گھنگور گھٹا میرے لئے ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام