تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا

غزل| اطہرؔ نفیس انتخاب| بزم سخن

تو ملا تھا اور میرے حال پر رویا بھی تھا
میرے سینے میں کبھی اک اضطراب ایسا بھی تھا
جس طرح دل آشنا تھا شہر کے آداب سے
کچھ اسی انداز سے شائستۂ صحرا بھی تھا
زندگی تنہا نہ تھی اے عشق تیری راہ میں
دھوپ تھی صحرا تھا اور اک مہرباں سایہ بھی تھا
عشق کے صحرا نشینوں سے ملاقاتیں بھی تھیں
حسن کے شہرِ نگاراں میں بہت چرچا بھی تھا
ہجر کے شب‌ زندہ داروں سے شناسائی بھی تھی
وصل کی لذت میں گم لوگوں سے اک ناتا بھی تھا
ہر فسردہ آنکھ سے مانوس تھی اپنی نظر
دکھ بھرے سینوں سے ہم رشتہ مرا سینہ بھی تھا

تھک بھی جاتے تھے اگر صحرا نوردی سے تو کیا
متصل صحرا کے اک وجد آفریں دریا بھی تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام