طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گذری

غزل| ساحرؔ لدھیانوی انتخاب| بزم سخن

طرب زاروں پہ کیا بیتی صنم خانوں پہ کیا گذری
دلِ زندہ ترے مرحوم ارمانوں پہ کیا گذری
زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گذری
ہمیں یہ فکر ان کی انجمن کس حال میں ہوگی
انہیں یہ غم کہ ان سے چھٹ کے دیوانوں پہ کیا گذری
مرا الحاد تو خیر ایک لعنت تھا سو ہے اب تک
مگر اس عالمِ وحشت میں ایمانوں پہ کیا گذری
یہ منظر کون سا منظر ہے پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گذری
چلو وہ کفر کے گھر سے سلامت آ گئے لیکن
خدا کی مملکت میں سوختہ جانوں پہ کیا گذری



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام