جہاں غم ملا اٹھایا پھر اُسے غزل میں ڈھالا

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

جہاں غم ملا اٹھایا پھر اُسے غزل میں ڈھالا
یہی دردِ سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا
ترے ہاتھ سے ملی ہے مجھے آنسوؤں کی مالا
تری زلف ہو دو گونہ ترا حسن ہو دوبالا
یہ سماں اسے دکھاؤں صبا جا اسے بلا لا
نہ بہار ہے نہ ساقی نہ شراب ہے نہ پیالا
میں ہرے بھرے چمن میں وہ شکستہ شاخِ گل ہوں
نہ خزاں نے جس کو تھاما نہ بہار نے سنبھالا
مرے غم کی قدر و قیمت کوئی میرے دل سے پوچھے
یہ چراغ وہ ہے جس سے مرے گھر میں ہے اجالا
جہاں حسن و عشق ہوں گے یہی دھوپ چھاؤں ہوگی
کبھی تیری بات اونچی کبھی میرا بول بالا

تجھے انجمن مبارک مجھے فکر و فن مبارک
یہی میرا تختِ زریں یہیں میری مرگ چھالا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام