تم نور کی وادی تھے میں نجد کا صحرا تھا

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

تم نور کی وادی تھے میں نجد کا صحرا تھا
تم حسن میں لاثانی میں عشق میں یکتا تھا
بہکا تو بہت بہکا سنبھلا تو ولی ٹہرا
اس چاک گریباں کا ہر رنگ نرالا تھا
جب رات کی آنکھوں سے چھلکے تھے مرے آنسو
وہ درد کا موسم تھا وہ کرب کا لمحہ تھا
اب یونہی سہی لیکن سوچو تو ذرا اک پل
جب مجھ سے تعلق تھا کیا خوب زمانہ تھا
اِن آنکھوں کا افسانہ بس اتنا سمجھ لیجئے
سہما ہوا صحرا تھا اُمڈا ہوا دریا تھا
یہ جبر کا سودا کیوں یہ نازشِ بے جا کیا
جو دل میں تمہارے ہے کہہ دیتے تو اچھا تھا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام