ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

ہجر کی آنکھوں سے آنکھیں تو ملاتے جائیے
ہجو میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے
بَن کے خوشبو کی اداسی رہیئے دل کے باغ میں
دور ہوتے جائیے نزدیک آتے جائیے
جاتے جاتے آپ اتنا کام تو کیجئے مرا
یاد کا سارا سر و ساماں جلاتے جائیے
رہ گئی امید تو برباد ہو جاؤں گا میں
جائیے تو پھر مجھے سچ مچ بھلاتے جائیے
زندگی کی انجمن کا بس یہی دستور ہے
بڑھ کے ملئیے اور مل کر دور ہوتے جائیے
آخری رشتہ تو ہم میں اک خوشی اک غم کا تھا
مسکراتے جائیے آنسو بہاتے جائیے
وہ گلی ہے اک شرابی چشمِ کافر کی گلی
اس گلی میں جائیے تو لڑکھڑاتے جائیے
آپ کو جب مجھ سے شکوہ ہی نہیں کوئی تو پھر
آگ ہی دل میں لگانی ہے لگاتے جائیے
کوچ ہے خوابوں سے تعبیروں کی سمتوں میں توپھر
جائیے پر دم بہ دم برباد ہوتے جائیے
آپ کا مہمان ہوں میں آپ میرے میزبان
سو مجھے زہرِ مروّت تو پلاتے جائیے

ہے سرِ شب اور مرے گھر میں نہیں کوئی چراغ
آگ تو اس گھر میں جانانہ لگاتے جائیے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام