ہماری آنکھیں بھی ہوجائیں خواب رُو آنکھیں

غزل| ماجدؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

ہماری آنکھیں بھی ہوجائیں خواب رُو آنکھیں
ہماری آنکھوں پر رکھ دے کبھی جو تُو آنکھیں
ہمیشہ رہتی ہیں تیری تلاش میں جاناں
ہمیشہ کرتی ہیں تیری ہی آرزو آنکھیں
نہ جانے کون سے جلووں کی جستجو ہے اُنہیں
بھٹک رہی ہیں فضا میں جو چار سوُ آنکھیں
یہ معجزہ بھی تو کچھ کم نہیں کہ شام و سحر
تمہارے ہجر میں رہتی ہیں باوضو آنکھیں
ترا فراق تری جستجو تری حسرت
یہ زخم زخم تبسم لہو لہو آنکھیں
نصیب میرا بھی روشن ہر صورتِ مہتاب
کبھی جو کردیں محبت کو سرخ رُو آنکھیں
بچھڑ کے تجھ سے میں زندہ نہ رہ سکوں شاید
نہ پھیرنا کبھی میری طرف سے تُو آنکھیں
تمہیں جو چھولوں تو ہاتھوں سے خوشبوئیں پھوٹیں
تمہیں جو دیکھوں تو ہوجائیں خوب رُو آنکھیں

جہاں لبوں کو ہلانا بھی جرم ہو ماجدؔ
وہاں اشاروں میں کرتی ہیں گفتگو آنکھیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام