دل کے لئے حیات کا پیغام بن گئیں

غزل| باقیؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

دل کے لئے حیات کا پیغام بن گئیں
بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں
آنے لگا حیات کو انجام کا خیال
جب آرزوئیں پھیل کر اک دام بن گئیں
کچھ لغزشوں سے کام جہاں کے سنور گئے
کچھ جرأتیں حیات پہ الزام بن گئیں
کچھ آرزوئیں کھو گئیں ان کی نگاہ میں
کچھ ٹوٹ کر غمِ سحر و شام بن گئیں
باقیؔ جہاں کرے گا مری مے کشی پہ رشک
اُن کی حسیں نگاہیں اگر جام بن گئیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام