ہم شانہ کشِ زلفِ گیتی ، ترانہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل

ترانے| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

شاعر بھٹکل جناب محمد حسین فطرت بھٹکلی کا لکھا ترانۂ جامعہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل

ہم شانہ کشِ زلفِ گیتی تزئینِ امم کے باعث ہیں
ہم نقش و نگارِ علم و فن رشحاتِ قلم کے باعث ہیں
ہم خندۂ سنبل و ریحاں ہیں ہم شمعِ طاقِ گلشن ہیں
ہے عطر فشانی وصف اپنا ہم سوز و ساز کے مخزن ہیں
ہم مطلعِ گوہرِ افشاں ہیں سورج کی تمازت رکھتے ہیں
ظلمت گہہِ آب و گِل ہیں ہم انوار کی دولت رکھتے ہیں
بال و پر شاہیں رکھتے ہیں پرواز پہ اپنی نازاں ہیں
شہبازِ فلک پیما ہیں ہم آفاق میں ہر سُو رقصاں ہیں
غنچوں کا تنفس رکھتے ہیں پھولوں کا تفکر رکھتے ہیں
ہم نغمہ سرائے فصل و گُل گلشن کا تصور رکھتے ہیں
ہم بھی ہیں بساطِ ہستی پر دنیائے رنگ و بُو کی طرح
آوارۂ دشتِ امکاں میں کہسار بکف خوابوں کی طرح
ہم فکر و نظر کی محفل میں خوشبوئے پریشاں ہیں گویا
ہم جادۂ علم و دانش میں ایک شمعِ فروزاں ہیں گویا
ہم بانگِ درا ہیں سامانِ انوارِ ہدایت رکھتے ہیں
اور قافلے سارے ہم سے ہی منزل کی بصیرت رکھتے ہیں
ہم شمعِ تجلی افشاں ہیں توحید کی ہر محفل کے لئے
ہم خندۂ برقِ سوزاں ہیں خاشاک و خسِ باطل کے لئے
سب ہم کو شجاعِ دوراں اور نبّاض زمانہ کہتے ہیں
غزواتِ بدر و احد پیہم اپنا ہی فسانہ کہتے ہیں
ائے جامعہ تیرے بام و در انفاسِ علیؔ سے مہکتے ہیں
ابرارؔ کے نورِ باطن سے ذرات یہاں کے دمکتے ہیں
احسان جنابِ ندویؔ کا ائے جامعہ تجھ پر ہے بھاری
نغماتِ جنوں سے تھی جن کے مرغانِ چمن بیداری
ملپاؔ کے تخیل نے بخشی ائے جامعہ تجھ کو شکلِ حسیں
روشن ہے منیریؔ کے دم سے ائے جامعہ تیری لوح جبیں
ائے جامعہ سعدا جفریؔ بھی تشکیل میں تیری شامل ہیں
ہیں اور بھی تیرے شیدائی جو اپنی لگن میں کامل ہیں
بوبکرؔ و اسمعیلؔ اپنے ایثار سے خدمت کرتےتھے
دامے درمے قدمے سخنے امداد واعانت کرتے تھے
وہ وقت ابھی کچھ دور نہیں جب سارا زمانہ جھومے گا
آفاق کے دامن میں پیہم فطرتؔ کا ترانہ گونجے گا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام