تیرے خاطر اک اشارہ رکھ دیا

غزل| عزیز نبیلؔ انتخاب| بزم سخن

تیرے خاطر اک اشارہ رکھ دیا
دل جلایا اور دوبارہ رکھ دیا
آپ کا جو بھی تھا انعام و کرم
ہم نے چوراہے پہ سارا رکھ دیا
ڈوب جانے کو تھا میں دریا کے بیچ
لا کے موجوں نے کنارا رکھ دیا
اس طرح اُس نے الگ مجھ کو کیا
بوجھ تھا جیسے اُتارا رکھ دیا
جانے خوشبو آئی تھی ملنے کسے
نام لوگوں نے ہمارا رکھ دیا
سر پٹکنا کرب کا اظہار ہے
کس نے لہروں پر شرارا رکھ دیا
میں نے پھر کھل کر کہا سب کچھ نبیلؔ
اک کنارے استعارہ رکھ دیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام