اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا

غزل| ابن انشاءؔ انتخاب| بزم سخن

اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کر دیں رستہ روک ستاروں کا
جھوٹے سکّوں میں بھی اُٹھا دیتے ہیں اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودا کرنا کام ہے ان بنجاروں کا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گےعاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہوسکتا ہے پوچھو حال بے چاروں کا
ایک ذرا سی بات تھی جس کا چرچا پہنچا گلی گلی
ہم گم ناموں نے پھر بھی احسان نہ مانا یاروں کا
درد کا کہنا چیخ اُٹھو دل کا تقاضا وضع نبھاؤ
سب کچھ سہنا چپ چپ رہنا کام ہے عزت داروں کا

انشاؔ اب انہی اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کے خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو اُن پیاروں کا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام