برق نے ضد میں نشیمن پہ جو ڈالیں آنکھیں

غزل| خالد فیصلؔ غازی پوری انتخاب| بزم سخن

برق نے ضد میں نشیمن پہ جو ڈالیں آنکھیں
ہم بهی ناواقف انجام مِلا لیں آنکھیں
تم نے دیکھا ہی نہیں گرم نگاہی کا خلوص
حسنِ برہم نے بهی شرما کے جهکا لیں آنکھیں
کھینچ رکھی تهی کماں تیر بکف ظالم نے
زد پہ آئے بهی نہ تهے اور نکالیں آنکھیں
جن کی راہوں میں جلائے تهے محبت کے چراغ
پاس سے ہو کے جو گزرے تو چرا لیں آنکھیں
ہم تو جی بهر کے ہنسے بهی نہ تهے لیکن یہ سزا
رونا آیا ہے تو رو رو کے گنوا لیں آنکھیں
مئے گلگوں پہ پڑا جب بهی ان آنکھوں کا جمال
بڑھ کے ساقی نے بهی آنکھوں میں اٹها لیں آنکھیں

منہ چھپائے ہوئے وہ بزم میں آئے فیصلؔ
تهے بہت دور مگر ان کو بلا لیں آنکھیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام