تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں

غزل| افتخار راغبؔ انتخاب| بزم سخن

تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں
مرجھانے لگے پودے کیوں عہدِ جوانی میں
تنکا ہوں کہ بہہ جاؤں برسات کے پانی میں
قائم ہوں چٹانوں سا دریا کی روانی میں
اُس پر ہی نہ جانے کیوں ہم جان لُٹا بیٹھے
معلوم نہیں کیا تھا اُس دشمنِ جانی میں
اشعار میں اب جدّت آئے گی نظر ان کو
اب ربط نہیں کوئی الفاظ و معانی میں
اُن کے بھی فسانے میں کردار مرا روشن
گم گشتہ نہیں ہوں میں اپنی ہی کہانی میں
بیدار بھی رہنے کا ہے دور یہی راغبؔ
غفلت کی خماری بھی چڑھتی ہے جوانی میں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام