وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے

غزل| ڈپتی مشرؔا انتخاب| بزم سخن

وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے
یہ اگر رسم و رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے
سچ کو میں نے سچ کہا جب کہہ دیا تو کہہ دیا
اب زمانے کی نظر میں یہ حماقت ہے تو ہے
جل گیا پروانہ تو شمع کی اس میں کیا خطا
رات بھر جلنا جلانا اس کی قسمت ہے تو ہے
دوست بن کر دشمنوں میں وہ ستاتا ہے مجھے
پھر اسی ظالم پہ مرنا اپنی فطرت ہے تو ہے
کب کہا میں نے کہ وہ مل جائے مجھ کو میں اُسے
غیر ہو نہ جائے وہ بس اتنی حسرت ہے تو ہے
دور تھے اور دور ہیں ہر دم زمیں و آسماں
دوریوں کے بعد بھی دونوں میں قربت ہے تو ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام