جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے

غزل| شاعؔر لکھنوی انتخاب| بزم سخن

جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
جو نظر نظر سے گلے ملی تو بجھے چراغ بھی جل گئے
جو غمِ حبیب سے دور تھے وہ خود اپنی آگ میں جل گئے
جو غم حبیب کو پا گئے وہ غموں سے ہنس کے نکل گئے
یہ شکستِ دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے
وہ مقامِ عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے
جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسنِ چمن سہی
مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے
غم و عیش و یاس و امید کا نہ اثر حیات پہ ہو سکا
مری روحِ عشق وہی رہی یہ لباس تھے جو بدل گئے
نہ ہے شاعرؔ اب غمِ نو بہ نو نہ وہ داغِ دل نہ وہ تازگی
جنہیں اعتمادِ بہار ہے وہی پھول رنگ بدل گئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام