جو برق سی دوڑا دے ملت کے جوانوں میں

غزل| ڈاکٹر حنیف شبابؔ انتخاب| بزم سخن

جو برق سی دوڑا دے ملت کے جوانوں میں
وہ سوز نہیں باقی واعظ کے بیانوں میں
معتوب ہوئے ہیں ہم کچھ ایسے زمانوں میں
جب تیر ہیں پتھر کے شیشے کی کمانوں میں
یا ذہن ہیں یخ بستہ یا مردہ ضمیری ہے
یا سوز نہیں باقی ملا کی اذانوں میں
تثلیت کے قائل تو مریخ پہ جا پہنچے
توحید کے وارث ہے وہموں میں گمانوں میں

برسات کا پانی تو رحمت ہے مگر سوچو
اک حشر بپا ہوگا پھر کچے مکانوں میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام