اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے

غزل| مظفرؔ وارثی انتخاب| بزم سخن

اک موڑ پر تمام زمانے لگے مجھے
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ
ان تک گئی جو آگ بجھانے لگے مجھے
آنکھوں میں جب تلک رہے کتنا غریب تھا
آنسو لٹا دیئے تو خزانے لگے مجھے
آنکھوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑی
چہروں کے خول آئینہ خانے لگے مجھے
اپنی طرف جو دیکھ لیا ان کو دیکھ کر
آنسو چراغ زخم خزانے لگے مجھے
دروازے پر جو ان کے میں جا بیٹھا ایک دن
دیوار کی طرح وہ اٹھانے لگے مجھے
رکھا نہ میری موت کا بھی غم سنبھال کر
آنکھوں سے اپنے لوگ بہانے لگے مجھے
آیا یہ کیسا خول چڑھا کر ستم ظریف
اندر کے داغ بھی نظر آنے لگے مجھے
سچائیوں کا زہر میں پینے چلا تو ہوں
یہ زہر پی کے نیند نہ آنے لگے مجھے
ٹپکا لہو تو ظلم کی تصویر بن گئی
ظالم اسے پلٹ کے دکھانے لگے مجھے
اونچا ہو میرا سر یہ کوئی چاہتا نہ تھا
سولی پہ بھی چڑھا تو گِرانے لگے مجھے
مانگے ہوئے حریر و جواہر کی سیج پر
سونے لگا تو پاؤں سرہانے لگے مجھے
مجھ سے ملے بغیر مظفرؔ جو تھے خفا
میں ان سے مل لیا تو منانے لگے مجھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام