اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا
مرا درد کیسے وہ جانتا مری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا ہی کے ساتھ تھا اسے روکنا بھی محال تھا
وہ جو اس کے سامنے آ گیا کسی روشنی میں نہا گیا
عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی عجب اس کا رنگِ جمال تھا
دمِ واپسیں اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی مرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا

مرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام