کروٹیں وقت کی بیکار ہوئی جاتی ہیں

غزل| احمد ندیمؔ قاسمی انتخاب| بزم سخن

کروٹیں وقت کی بیکار ہوئی جاتی ہیں
اور بھی درپئے آزار ہوئی جاتی ہیں
کس کے انفاس میں پنہاں میں بہاروں کے ہجوم
کونپلیں پھوٹ کے گلزار ہوئی جاتی ہیں
گتھیاں ولولۂ شوق کی سلجھیں کیوں کر
جتنی کھلتی ہیں پُراسرار ہوئی جاتی ہیں
نت نیا درد ، نئی آس ، نیا بہلاوا
گردشیں میری خریدار ہوئی جاتی ہیں
ہر تقاضے پہ نیا ضابطہ رہتا ہے سوار
روحیں لفظوں میں گرفتار ہوئی جاتی ہیں
شاید اب عشق ہے نومیدئ جاوید کا نام
آنکھیں رونے کی گنہگار ہوئی جاتی ہیں
شاید اب ابر کے چھٹنے کا گماں باطل ہے
صبحیں ہم رنگِ شبِ تار ہوئی جاتی ہیں
جن صداؤں کے لئے گوش بر آواز تھا دہر
اصطلاحوں میں گرفتار ہوئی جاتی ہیں
آرزوؤں کو ہے اب اُن سے شکایت یعنی
آزمائش کی سزاوار ہوئی جاتی ہیں
اتنی ہلکی ہے شبستانِ محبت کی ہوا
میری سانسیں بھی مجھے بار ہوئی جاتی ہیں
اب لپکتی ہوئی کشتی کا سنبھلنا معلوم
پھر چٹانیں سی نمودار ہوئی جاتی ہیں
ان کے ہالے میں کہیں میرا نشیمن تو نہ تھا
بجلیاں کس کی پرستار ہوئی جاتی ہیں
منزلیں دور سہی ، راہ نما چور سہی
لغزشیں قافلہ سالار ہوئی جاتی ہیں
تشنہ کامی کا یہ عالم ہے کہ میری نظریں
جس قدر تھکتی ہیں سرشار ہوئی جاتی ہیں

ضبطِ فریاد کا شاید ہے یہ انجام ندیؔم
میری خاموشیاں گفتار ہوئی جاتی ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام