حصولِ آرزو میں سعیٔ امکانی تو ہوتی ہے

غزل| ادیبؔ مالیگانوی انتخاب| بزم سخن

حصولِ آرزو میں سعیٔ امکانی تو ہوتی ہے
پریشانی سے کیا ڈرنا پریشانی تو ہوتی ہے
کوئی گھبرا کے اپنی جان ہی دے دے تو کیا کہئے
ہر اک مشکل سے پیدا ورنہ آسانی تو ہوتی ہے
بہاروں سے تعلق عارضی اپنا سہی لیکن
ہمارے گھر کی رونق اب بھی ویرانی تو ہوتی ہے
مزاجِ حسن پر کیا زور اہلِ عشق کا ورنہ
جب ان کا ذکر آتا ہے پشیمانی تو ہوتی ہے
کہیں ملتا ہے ان کو سوز میرے اشکِ رنگیں کا
مہ و انجم میں یوں ہونے کو تابانی تو ہوتی ہے
ضمانت آسماں کی کون دے اربابِ گلشن کو
یہ مانا لالہ و گل کی نگہبانی تو ہوتی ہے
تمہارے ساتھ تھیں کچھ اور ظالم چاندنی راتیں
فضا میں آج بھی اک کیفِ سامانی تو ہوتی ہے
طریقِ دل نوازی بھی ہوا کرتا ہے لوگوں میں
جفا کاری تو کرتے ہو ستم رانی تو ہوتی ہے
ہنسی دنیا کے ہنسنے پر نہ کیوں آئے محبت کو
جسے کہتے ہیں سب دنیا وہ دیوانی تو ہوتی ہے
ادیبؔ ایسی نوا جس سے دلوں کو زندگی ملتی
غزل خوانی کا کیا کہنا غزل خوانی تو ہوتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام