ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی

غزل| مہندرسنگھ بیدی سحرؔ انتخاب| بزم سخن

ہر لحظہ مکیں دل میں تری یاد رہے گی
بستی یہ اجڑنے پہ بھی آباد رہے گی
اک رنگ میں یہ ہستیٔ ناشاد رہے *گی
برباد تھی برباد ہے برباد رہے گی
ہر لمحہ نیا رنج ہے ہر لحظہ نیا درد
’’دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی‘‘
ہے عشق وہ نعمت جو خریدی نہیں جاتی
یہ شے ہے خدا داد خدا داد رہے گی
صیاد کو معلوم نہ تھا راز یہ شاید
یہ روح قفس میں بھی تو آزاد رہے گی
وہ آئے بھی تو ضبط سے لب ہل نہ سکیں گے
فریاد مری تشنۂ فریاد رہے گی
یہ حسن ستم کوش ستم کوش ہے کب تک
کب تک یہ نظر بانیٔ بیداد رہے گی
وہ زلف پریشاں کا سنوارے نہ سنورنا
وہ ان کے بگڑنے کی ادا یاد رہے گی

اتنا نہیں کوئی کہ سحرؔ اس سے یہ پوچھے
کب تک یہ جفا بانیٔ بیداد رہے گی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام