کچھ اس ادا سے خونِ تمنّا کیا گیا

غزل| ماہرؔ القادری انتخاب| بزم سخن

کچھ اس ادا سے خونِ تمنّا کیا گیا
جیسے میری طرف سے تقاضا کیا گیا
سچ تو یہ ہے کے غم ہی محبّت کی جان ہے
تیرے لئے خوشی کو گوارا کیا گیا
میں اپنی غم پرست طبیعت کو کیا کروں
جب خود ہوا نہ درد تو پیدا کیا گیا
اُتنے ہی وہ گرفتِ نظر سے تھے دور دور
جتنا قریب جا کے نظارہ کیا گیا
وہ ہنس دئیے کہ عرضِ تمنّا فضول ہے
میں اس خیال میں کہ اشارا کیا گیا
وہ خود بھی آپ اپنے ہی جلووُں میں محو تھے
اُن کی نظر سے ان کا نظارہ کیا گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام