ممنونِ التفاتِ ستم ہو کے آ گیا

غزل| بسملؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

ممنونِ التفاتِ ستم ہو کے آ گیا
اس طرح جیسے رہنِ کرم ہو کے آ گیا
جا کر تو کم ہوا تھا میں اپنی نظر میں بھی
اُن کی نظر میں کم سے بھی کم ہو کے آ گیا
غفلت شعار آنکھ میں آنسو کہاں نصیب
عبرت شعار آنکھ میں نم ہو کے آ گیا
یہ سوچ کر کہ ختم ہو دورِ ستم کہیں
میں خود بھی کچھ شریکِ ستم ہو کے آ گیا
اس دور کا نہ ماضیٔ مرحوم مل سکا
ہر قبر پر خدا کی قسم ہو کے آ گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام