ضرورت تھی کہ جو میداں میں نکلے سر بکف نکلے

غزل| انجمؔ رومانی انتخاب| بزم سخن

ضرورت تھی کہ جو میداں میں نکلے سر بکف نکلے
مگر ہم ہیں کہ نکلے بھی تو لے کر چنگ و دف نکلے
ہمیں تھے انقلابِ دہر کے پیغامبر اک دن
ہمیں اے وائے اب تیرِ ہلاکت کا ہدف نکلے
ہمیں ہیں اب حقائق سے جو کترا کر نکلتے ہیں
ہمیں تھے جو مصافِ زندگی میں صف بہ صف نکلے
نہیں دریائے تہذیبِ نوی دریائے ظلمت ہے
عجب کیا ہے کہ بے گوہر ہو جو اس سے صدف نکلے
غضب کی تیرگی ہے رات دیکھیں کس طرح گزرے
عجب گم کردگی ہے راہ دیکھیں کس طرف نکلے
زمانہ ہے یزیدوں اور فرعونوں کا کیا کیجے
کہ جس سے کیجیے فریاد اسی کے منہ سے کف نکلے

کوئی ہے جو یہاں اس کربلا میں جان پر کھیلے
کوئی ہے جو یہاں اب صورتِ شاہِ نجف نکلے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام