وہ عہد مسرت کی باتیں وہ وقت سہانا بھول گئے

غزل| وامقؔ جونپوری انتخاب| بزم سخن

وہ عہد مسرت کی باتیں وہ وقت سہانا بھول گئے
جب سے غمِ دوراں یاد آیا سب لطفِ زمانہ بھول گئے
خاموش ہے گو بزمِ الفت جاتی ہی نہیں دل کی وحشت
جس شمع سے روشن تھی محفل ہم اس کو بجھانا بھول گئے
تنظیمِ گلستاں کی دھن میں اب شاخِ نشیمن یاد نہیں
اے گردشِ دوراں خوش ہو لے ہم اپنا ٹھکانہ بھول گئے
جب ہنسنے ہنسانے کے دن تھے ہم آٹھ پہر روتے ہی رہے
اب وقت جو آیا رونے کا ہم اشک بہانا بھول گئے
اندوہ کی ماری دنیا میں کچھ اپنی زباں سے کہہ نہ سکے
اوروں کے فسانے سن سن کر ہم اپنا فسانہ بھول گئے
اے بربطِ جاں دکھ سہنے دے بے خوابِ شبستاں رہنے دے
جس گیت پہ نیند آتی تھی ہمیں وہ گیت ہی گانا بھول گئے
اے تندئ صہبا دشمنِ غم کیفیتِ عالم دیکھ کے ہم
شیشہ کو لگا کر ہونٹوں سے پھر اس کو ہٹانا بھول گئے
اک شور مئے و مینا لے کر ہم ٹوٹ پڑے انگاروں پر
ہشیار بنا کر دنیا کو خود ہوش میں آنا بھول گئے

اس دورِ تلاطم میں وامقؔ کتنے ہی سفینے کھے ڈالے
اور اپنی شکستہ کشتی کو موجوں سے بچانا بھول گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام