دل کہہ رہا ہے اُن کی نظر دیکھتے ہوئے

غزل| حیرتؔ شملوی انتخاب| بزم سخن

دل کہہ رہا ہے اُن کی نظر دیکھتے ہوئے
دیکھیں گے کیا اِدھر وہ اُدھر دیکھتے ہوئے
اُمید تھی کسے کہ گزر جائیں گے یہ دن
دل پر وفورِ غم کا اثر دیکھتے ہوئے
اپنا تو حال یہ ہے کہ اک عمر کٹ گئی
دنیائے دل کو زیر و زبر دیکھتے ہوئے
ہوتا ہے آپ پر بھی اثر کوئی یا نہیں
یہ انقلابِ شام و سحر دیکھتے ہوئے
کچھ اس طرف سے نامہ و پیغام ہی سہی
مدت ہوئی ہے جانبِ در دیکھتے ہوئے
بے داد کیجئے، ستم ایجاد کیجئے
لیکن کسی کا قلب و جگر دیکھتے ہوئے
حیرتؔ سے اختلاف کسی کا عجب نہیں
حیرت کا منتہائے نظر دیکھتے ہوئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام