جو بس گیا تھا ہماری آنکھوں کی وحشتوں میں قرار بن کر

غزل| سید سالکؔ برماور انتخاب| بزم سخن

جو بس گیا تھا ہماری آنکھوں کی وحشتوں میں قرار بن کر
اسی کا صدقہ ہے آنکھ چھلکے ہے بار بار اشک بار بن کر
جو بے سبب دکھ کسی کو دو گے کسی کا سکھ چین لوٹ لو گے
تو جان رکھو کہ لوٹ آئیں گے غم وہ سارے ادھار بن کر
وہ جس نے مجھ کو دلوں کی گہرائیوں میں اپنی بسا دیا تھا
نہ جانے اب کیوں کھٹک رہا ہوں میں اس کی آنکھوں میں خار بن کر
اگر یہاں پر زمین ہے تنگ میری خاطر تو یہ دعا ہے
مرے خدا! میں رہوں نہ ہرگز کسی کے کاندھوں پہ بار بن کر
میں اس کے مصرعوں کو چومتا ہوں میں اس کی لے پر بھی جھومتا ہوں
وہ نغمۂ جاں فزا جو دل میں اتر گیا ہے خمار بن کر
تمہاری یادوں کی گلفشانی دل و نظر کو کرے معطّر
تمہارے کوچے سے آ رہی ہیں ہوائیں بھی مشک بار بن کر
شکستہ پائی بجا ہے لیکن ہم ہی نے آندھی کو مات دی ہے
خزاں رسیدہ چمن پہ ہم چھا گئے ہیں فصلِ بہار بن کر
ہماری بستی میں رہنے والے تو دشمنوں کے بھی ہیں محافظ
'خدا کی بستی میں رہنے والے تو لوٹ لیتے ہیں یار بن کر'
ہماری جانب جو آ رہی تھیں بلائیں دہلیز ہی سے لوٹیں
ہمارے اطراف کچھ دعائیں کھڑی ہوئی تھیں حصار بن کر
کسی کی آنکھوں سے دور ہو کر کسی کی آنکھوں کا نور ہو کر
کسی طرح بے قرار لمحے گزرتے ہیں انتظار بن کر

شکستہ دل کی صدا کو اپنی غزل کے قالب میں ڈھالتا ہوں
جو سالکِ بے نوا کو شہرت ملی ہے نغمہ نگار بن کر


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام