کثافت دھل گئی تو آسماں نیلا نکل آیا

غزل| مسعودؔ احمد انتخاب| بزم سخن

کثافت دھل گئی تو آسماں نیلا نکل آیا
ستاروں کا جہاں کچھ اور چمکیلا نکل آیا
قرائن سے پتا چلتا ہے صحرا بھی سمندر تھا
اچانک ریت کا ذرّہ کوئی گیلا نکل آیا
مسرت شادمانی پر خزاں کا رنگ غالب ہے
مرا چہرہ خوشی سے اور بھی پیلا نکل آیا
مری تقدیر نے تدبیر کو الٹا دیا پھر سے
تمہارے زہر سے تریاق زہریلا نکل آیا
بلندی سے بہت اوپر کسی پستی کا دروازہ
نشیبوں سے بہت نیچے کوئی ٹیلا نکل آیا
ہمارے سرد پڑنے کی یہی وجہ مصمّم تھی
رگوں میں دوڑتا سیّال برفیلا نکل آیا
ہمارے دل کو عادت تھی ہمیشہ موم ہونے کی
تمہارے دل سے مل کر یہ پتھریلا نکل آیا
یہ اسبابِ سفر پھر کسی طرح سے باندھ کر رکھتے
ارادہ کس کے باندھا بھی تو وہ ڈھیلا نکل آیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام