جو ہم نظامِ نمو خانۂ وفا کرتے

غزل| سیمابؔ اکبر آبادی انتخاب| ابو الحسن علی

جو ہم نظامِ نمو خانۂ وفا کرتے
تو آنسوؤں سے محبّت کے دل بنا کرتے
ہر ایک سانس تھی رومانِ نَو کی اک تمہید
کہاں سے اپنے فسانے کی ابتدا کرتے
مزاجِ عشق میں ہوتا اگر سلیقۂ ناز
تو آج اس کے قدم پر بھی سر جھکا کرتے
ترے سوا نظر و دل میں کوئی تھا ہی نہیں
مجال کیا تھا کہ ہم فکرِ ما سوا کرتے
سنا یہ تھا کہ محبّت ہے بے حد و انجام
روا نہ تھا کہ محبّت کا حق ادا کرتے
جھکا کے سر بہ ادائے نیاز بیٹھ گئے
غرورِ حسن کو بے اعتبار کیا کرتے
شریکِ حال نہ ہوتی جو کاوشِ امروز
کبھی کبھی غمِ ماضی پہ رو لیا کرتے
کوئی یہ شکوہ سرایانِ جور سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے

غزل ہی کہہ لی سنانے کو حشر میں سیمابؔ
پڑے پڑے یونہی تنہا لحد میں کیا کرتے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام