نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا

غزل| ظفرؔ اقبال انتخاب| بزم سخن

نہیں کہ ملنے ملانے کا سلسلہ رکھنا
کسی بھی سطح پہ کوئی تو رابطہ رکھنا
مریں گے لوگ ہمارے سوا بھی تم پہ بہت
یہ جرم ہے تو پھر اس جرم کی سزا رکھنا
مدد کی تم سے توقع تو خیر کیا ہوگی
غریبِ شہرِ ستم ہوں مرا پتا رکھنا
بس ایک شام ہمیں چاہیے نہ پوچھنا کیوں
یہ بات اور کسی شام پر اٹھا رکھنا
نئے سفر پر روانہ ہوا ہوں از سرِ نو
جب آؤں گا تو مرا نام بھی نیا رکھنا
فصیلِ شوق اٹھانا ظفرؔ ضرور مگر
کسی طرف سے نکلنے کا راستہ رکھنا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام