چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا

غزل| عرفانؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا
زمیں چھٹی تو بھٹک جاؤ گے خلاؤں میں
تم اڑتے اڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا
نہیں تو برف سا پانی تمہیں جلا دے گا
گلاس دیتے ہوئے انگلیاں نہ چھو لینا
ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا
اڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا
مروتوں کو محبت نہ جاننا عرفانؔ
تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام