جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو

غزل| نظیرؔ اکبر آبادی انتخاب| حنظلہ سید

جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچے سے
الٰہی راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو
علاج کیا کریں حکماء تپ جدائی کا
سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو
نظیرؔ اپنا تو معشوق خوب صورت ہے
جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام