پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے

غزل| ساحرؔ لدھیانوی انتخاب| بزم سخن

پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے
سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا سر اٹھاؤ تو کوئی بات بنے
زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے
رنگ اور نسل ذات اور مذہب جو بھی ہے آدمی سے کمتر ہے
اس حقیقت کو تم بھی میری طرح مان جاؤ تو کوئی بات بنے
نفرتوں کے جہان میں ہم کو پیار کی بستیاں بسانی ہیں
دور رہنا کوئی کمال نہیں پاس آؤ تو کوئی بات بنے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام