شب خون کا خطرہ ہے ابھی جاگتے رہنا

غزل| راؔز الٰہ آبادی انتخاب| بزم سخن

شب خون کا خطرہ ہے ابھی جاگتے رہنا
قاتل پسِ پردہ ہے ابھی جاگتے رہنا
ہیں قید ترے بخت کے سورج کی شعاعیں
یہ صبح کا دھوکا ہے ابھی جاگتے رہنا
لڑنا ہے تجھے شب کے اندھیروں سے مسافر
سورج کہاں نکلا ہے ابھی جاگتے رہنا
پھر آنے لگی نیند مرے ہم سفروں کو
اپنا تو ارادہ ہے ابھی جاگتے رہنا
ہے منزلِ تعمیر میں تعبیر کا سورج
یہ خواب ادھورا ہے ابھی جاگتے رہنا
نیندیں تو یہ کہتی ہیں چلو چین سے سوئیں
دل سینے میں کہتا ہے ابھی جاگتے رہنا
یہ کہہ کے مجھے رازؔ وہ سونے نہیں دیتا
ہر گام پہ خطرہ ہے ابھی جاگتے رہنا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام