اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا

غزل| ادیبؔ سہارنپوری انتخاب| بزم سخن

اک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا
جان کر ہم نے انہیں نا مہرباں رہنے دیا
آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے
فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا
کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے
عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا
اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے
چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا
کون اس طرزِ جفائے آسماں کی داد دے
باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا
ہم سے اربابِ جنوں کی شوخیٔ ایجاد نے
اہلِ دانش کو ہمیشہ سرگراں رہنے دیا

یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ
شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام