گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

غزل| خاطرؔ غزنوی انتخاب| بزم سخن

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
گرمیٔ محفل فقط اک نعرۂ مستانہ ہے
اور وہ خوش ہیں کہ اس محفل سے دیوانے گئے
میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں
مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے
یوں تو وہ میری رگِ جاں سے بھی تھے نزدیک تر
آنسؤوں کی دھند میں لیکن نہ پہچانے گئے
وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر ہوگئیں
ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے
اب بھی ان یادوں کی خوشبو ذہن میں محفوظ ہے
بارہا ہم جن سے گلزاروں کو مہکانے گئے

کیا قیامت ہے کہ خاطرؔ کشتۂ شب بھی تھے ہم
صبح بھی آئی تو مجرم ہم ہی گردانے گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام