جو کانٹوں پر چل کر آئے

غزل| ابو المجاہد زاہدؔ انتخاب| بزم سخن

جو کانٹوں پر چل کر آئے
وہ پھولوں کو ہاتھ لگائے
ہم تو دنیا سے بھر پائے
گل برسائے پتھر کھائے
جن سے ہمیں امید نہیں تھی
اُن سے ہم نے دھوکے کھائے
ہم تو ٹہرے دھوپ کے راہی
ہاں تم جاؤ سائے سائے
آگ بجھانے والے ہی جب
آگ لگائیں ، کون بجھائے
کمبل تو میں چھوڑ چکا ہوں
کوئی مجھے کمبل سے چھڑائے
کوئی نیکی یاد کریں ہم
شاید غار کا منہ کھل جائے
جھوٹوں کی نگری میں زاہدؔ
جو سچ بولے مارا جائے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام